Announcement:

We will guide you as how you can earn online. Earn money for free , Domain Parking , Captcha Jobs , Ad Network..More..

سائنس قرآن کے حضور میں

قرآن مجید اور جدید سائنس کی ثابت شدہ حقیقتوں میں بے مثال مطابقت پائی جاتی ہے ۔ جو قرآن کے منجانب اللہ ہونے کی بہترین دلیل ہے۔ اسی مناسبت سے میں نے ان تمام معلومات کو اپنے بلا گ میں جمع کردیا ہے۔ دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ ان معلومات کو پڑھیں اور اپنے ایمان میں اضافہ فرمائیں۔ بلاگ کو وزٹ کرنے والے تمام افراد کو میں دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں
اس ویب سائٹ کی اردو اور عربی لکھائی کو درست دیکھنے کے لیے یہ دونوں فانٹس، جمیل نوری نستعلیق اور المصحف کو ڈاون لوڈ ک رکے اپنے کمپیوٹر میں انسٹال کرلیجیے ۔شکریہ
انگلیوں کے نشانات
قیامت کے منکر اس بات کو ماننے کے لیے بالکل تیا ر نہیں ہیں کہ وہ انسان کہ جس کی ہڈیاں مرنے کے بعد گل سڑ کر ختم ہو جاتی ہیں ،قیامت کے دن پھر جی اٹھے گا ،یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہر انسان وہی شکل وصورت لے کر دوبارہ زندہ ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب درج ذیل آیت میں دیا ہے:
(اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعُ عِظَامَہ ۔ بَلٰی قٰدِرِیْنَ عَلٰی اَنْ نُّسَوِّیَ بَنَانَہ)
'' کیا انسا ن یہ سمجھتاہے کہ ہم اس کی ہڈیاں اکٹھی نہ کر سکیں گے؟کیوں نہیں،ہم اس بات پر قادر ہیں کہ (پھر سے )اس کی انگلیوں کے پور پور تک درست بنا دیں''(1)
ماں کے پیٹ میں حمل کے چوتھے مہینے میں جنین کی انگلیوں پر نشانات بنتے ہیں ،جوپھر پیدائش سے لے کر مرنے تک ایک جیسے رہتے ہیں۔انگلیوں کے نشان ،آڑھی ترچھی ،گول اورخمدار لکیروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جو انسان کی جلد کے اندرونی وبیرونی حصّوں کی آمیزش سے بنتے ہیں۔ کسی بھی انسان کی پہچان اور شناخت کے لیے ہاتھ کی لکیریں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔مگر اس بات کا بنی نوع انسان کو پتہ نہیں تھا۔تاہم دو سو سال پہلے انگلیوں کے نشانات اس قدر اہم نہ تھے کیونکہ انیسویں صدی کے آخر میں یہ بات دریافت ہوئی تھی کہ انسانوں کی انگلیوں کے نشان ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔1880ء میں ایک انگریز سائنس دان Henry Fauldsنے اپنے ایک مقالے میں جو ''نیچر''نامی جریدے میں شائع ہوا ،اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ لوگوں کی انگلیوں کے نشان عمر بھر تبدیل نہیں ہوتے اوران کی بنیاد پر ایسے مشتبہ لوگ جن کی انگلیوں کے نشان کسی شے پر مثلاًشیشے وغیرہ پر رہ جاتے ہیں' مقدمہ چلایا جاسکتاہے۔ ایسا پہلی بار 1884ء میں ہوا کہ انگلیوں کے نشانات کی شناخت کی بناپر ایک قتل کے ملز م کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اس دن سے انگلیوں کے نشانات شناخت کا نہایت عمدہ طریقہ بن گئے ہیں۔تاہم 19ویں صدی سے قبل غالباً لوگوں نے بھول کر بھی نہ سوچاہو گا کہ ان کی انگلیوں کے نشانات کی لہر دار لکیریں بھی کچھ معنی رکھتی ہیں اوران پر غور بھی کیا جاسکتا ہے۔ (2)

ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مطابق بھی '' دنیا میں کسی بھی آدمی کی انگلیوں کے نشان کسی بھی دوسرے آدمی کی انگلیوں کے نشانات سے نہیں ملتے چاہے وہ جڑواں ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی طور پر بھی پولیس مجرموں کی شناخت کے لیے فنگر پرنٹس کے طریقے ہی کو استعمال کرتی ہے''۔ ( 3)
ساخت کے لحاظ سے جلد دو تہوں پرمشتمل ہوتی ہے۔ ایک بیرونی پتلی تہہ جس کو برادمہ (Epidermis)کہتے ہیں۔یہ تہہ برحلمی (Epithelial)خلیوں پر مشتمل ہوتی ہے جو باہم بہت زیادہ پیوست ہوتے ہیں۔اس کے نیچے ایک اندرونی موٹی تہہ ہوتی ہے،جو ادمہ (Dermis)کہلاتی ہے۔ ادمہ کی سطح بہت سے مقامات پر انگلیوں کی طرح کے ابھاروں کی صورت میں اٹھی ہوتی ہے۔ یہ ابھار برادمہ میں گھسے ہوئے ہوتے ہیں۔انہیں ثالیل (Papillae)یاادمی ثالیل (Dermal Papillae)کہتے ہیں۔یہ ابھار ہتھیلی اورتلووں (بمعہ ہاتھ اورپاؤں کی انگلیوں کے )پر سب سے زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔خاص طورپر ہاتھ اورپاؤں کی انگلیوں کی سیدھی جانب ان ابھاروں کی قطاریں اس حد تک واضح ہوتی ہیں کہ ان کے نشانات کاغذ یا کسی بھی چیز پر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ہر فرد کی انگلیوں اورانگوٹھے میں ان ابھاروں کی ترتیب اورانداز مختلف ہوتے ہیں۔یعنی ایک آدمی کی انگلیوں کے یہ نشانات کسی بھی دوسرے آدمی سے نہیں ملتے۔ حتیٰ کہ جڑواں بچوں کے بھی نہیں۔ نیزایک ہی آدمی میں یہ ابھارایک جیسے رہتے ہیں اورزندگی کے کسی بھی مرحلے میں تبدیل نہیں ہوتے۔ البتہ عمر کے ساتھ ساتھ یہ سائز میں بڑے ہوتے جاتے ہیں۔(4)
بچے میں یہ ابھار حمل کے تیسرے اورچوتھے مہینے کے درمیان میں اس وقت پیداہوتے ہیں جب برادمہ نیچے موجود ادمی ابھاروں کے خدوخال کے موافق ہوجاتی ہے۔ ان ابھاروں کا کبھی بھی نہ تبدیل ہونے کی خاصیت ہر انسان کی انفرادی پہچان کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔چونکہ پسینوں کے غدود کی نالیا ں برادمی ابھاروں کی چوٹیوں پر کھلتی ہیں ،اسی لیے جب کسی ہموار چیز کو چھواجاتا ہے تو اسی پر انگلیوں (یا پاؤں )کے نشانات ثبت ہو جاتے ہیں۔
جدید سائنس نے حال ہی میں انکشاف کیاہے کہ جرائم کی تحقیقات میں پولیس کو بہت جلد انگلیوں کے نشانات سے لوگوں کے طرززندگی کے بارے میں بھی اہم معلومات حاصل ہو سکیں گی جن کی مدد سے انہیں مجرم تک پہنچنے میں بہت مدد ملے گی۔ برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق سے ایسے امکانات پیداہوئے ہیں جن سے سگریٹ نوشی 'منشیات کے استعمال یا انگلیوں کے نشانات میں عمر کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں کا پتا چلایا جا سکتاہے۔
ڈاکٹرجکیلز کا کہنا ہے کہ جب انسان کسی چیز کو چھوتے ہیں تو کچھ نامیاتی مرکبات انگلیوں کے پوروں سے اس چیز پر لگ جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ انگلیوں کے پوروں میں بہت سے نامیاتی مرکبات پائے جاتے ہیں اوریہ بہت سے امکانات کو جنم دیتے ہیں۔اس طرح کا ایک نامیاتی مرکب جس سے کولیسٹرول بھی بنتاہے انسانی پوروں میں بڑی تعداد میں پایا جاتاہے۔ یہ مرکب جسے سکیولین کہا جاتاہے انسانی ہاتھ سے مس ہونے والی چیز پر رہ جاتاہے۔ اس کا روایتی طریقے یا انسانی آنکھ سے پتا لگانا ناممکن ہے۔
ڈاکٹر جکیلز کے مطابق بالغوں 'بچوں اورعمر رسیدہ لوگوں کی انگلیوں سے مختلف نوعیت کے نامیاتی مرکبات چیزوں پر لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ منشیات کا استعمال کرنے والوں کی ا نگلیوں کے پوروں سے جو نامیاتی مرکبات چیزوں پر لگتے ہیں اس میں ان نشہ آور اشیا کے اثرات بھی پائے جاتے ہیں جو وہ استعمال کرتے ہیں۔(5)


اللہ تعالیٰ مندرجہ بالاآیت میں ان لوگوں کو جواب دیتے ہوئے فرماتاہے کہ وہ نہ صرف ہماری ہڈیوں کو دوبارہ بالکل اسی طرح جوڑ دے گا جیسا کہ وہ پہلے تھیں بلکہ ان کی انگلیوں کے پوروں کے نشانات بھی بالکل ویسے ہی ہوں گے جیسا کہ پہلے تھے۔ قرآن یہاں پر انسانوں کی شناخت کے حوالے سے انگلیوں کے نشانات کو کیوں اہمیت دے رہا ہے جبکہ 1880 ء سے پہلے انگلیوں کے نشانات کے ذریعے کسی انسان کی انفرادیت یا شناخت کا تصور بھی نہیں پا یا جاتاتھا۔ چنانچہ اربو ں کھربوں انسانوں کی ہلاکت کے بعد قیامت کے دن دوبارہ ان کو زندہ کرنا جب کہ ان کی ہڈیاں ریزہ ریزہ اورجسم گل سڑ چکے ہوں گے ،دوبارہ اسی شکل وصورت میں پیداکرنا بلکہ انگلیوں کے پور پور تک کا اسی پہلی بناوٹ میں ہونا ،اللہ تعالیٰ کی عظمت و بڑائی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔چنانچہ یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی انگلیوں کی لکیروں میں جو راز پنہاں رکھا ہے وہ اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اوراللہ تعالیٰ نے جو بے مثال انجنیئرنگ اور ڈیزائنگ صرف چند مربع سینٹی میٹر کے رقبے میں کی ہے کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے بلکہ انسان اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اتنی چھوٹی سی جگہ کے اندر اربوں ، کھربوں نمونے تیار کیے جا سکتے ہیں۔ یہا ں سوال پیدا ہوتا ہے کہ 1400 سال پہلے وہ کون سی ہستی تھی کہ جس کو پتہ تھا کہ تما م انسانوں کے ہاتھوں کے نشانات مختلف ہیں اور ان ہی کی وجہ سے کسی انسان کی شناخت ممکن ہے تو جواب ملے گاکہ سوائے اللہ رب العزت کی ذات کے 'کوئی اس بات کو نہیں جانتا تھا کیوں کہ وہی ہمارا خالق ہے اور وہی جانتاہے کہ انسان کی پیدائش کس طرح ہوئی۔

انسانی فکروعمل میں قلب کا بنیادی کردار اور اسلام
https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgP1ErQ7foyUdpXnv-BZCAhOs8NYIfAlBTF7xPoth-NjLfUE53J4_YQraWqsn7gK7RcAvWFm64QInmyfmAwt8Ws9aG9dBysv4KpFmb3vQLYvTN9CgZ9Cqn8mGpPVSvGXfNWF2zpsAMYSA-9/s1600/depression-cause-heart-attack-1.jpg
قلبانسانی جسم کا اہم اور کلید ی عضو ہے جو جسم انسانی کی طرح فکر وعمل میں بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔اس لیے قرآن وحدیث کی نظر میں قلب کی درستی پر انسانی عمل کی درستی کا انحصار ہے ۔قراآن وحدیث میں انسانی دل کو ذہانت کا منبع اور جذبات اور احساسات رکھنے والا عضو قرار دیا گیا ہے۔اس دور میں سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی،اس لیے انیسویں صدی تک یہی سمجھا جاتا رہا کہ انسانی دل کی حیثیت صرف پمپ جیسی ہے جو پورے جسم میں خون پمپ کرتا ہے ۔تاہم بیسویں صدی کے وسط میں سائنس نے پہلی مرتبہ یہ حیرت انگیز دریافت کی کہ انسانی دل میں بھی انسانی دماغ کی طرح کے ذہانت کے خلیے پائے جاتے ہیں ۔اس انقلابی دریافت کے بعد پھر انسانی دل پر بحیثیت منبع ذہانت (Source of Intelligence) کےمغرب میں بھی کئی اہم سائنسی تحقیقات ہوئیں ۔ان تحقیقات کو اس بحث میں مختصراً پیش کیا جائے گا تاکہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہوسکے کہ سائنس آج ان حقائق کو دریافت کر رہی ہے جو  قرآن وحدیث نے1400 سال پہلے بیان کر دیے تھے۔
انسانی دل کے اندر چھوٹا سادماغ۔۔۔۔۔جدید سائنسی تحقیق
انیسویں صدی حتیٰ کہ بیسویں صدی کے نصف تک سائنس دانوں کے حلقوں میں انسانی دل کو صرف خون پمپ کرنے والا ایک عضو ہی سمجھا جاتا تھا۔لیکن پھر کچھ مزید سائنسی تحقیقات ہوئیں تو سائنس ،دل کے متعلق اس بات کو سمجھنا  شروع ہوئی جو قرآن نے اور آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے کہی تھی۔جیساکہ تفسیر قرآن کے ماہر صحابیٴرسول حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس قرآن میں ایسی آیات ہیں جنہیں صرف وقت گزرنے کے ساتھ ہی سمجھا جا سکے گا۔یعنی جیسے جیسے سائنسی علوم ترقی کریں گے۔
انسانی دل کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہو اکہ جدید سائنس نےا نسانی دل کے متعلق اب یہ سمجھنا شروع کیا ہے کہ اس میں بھی ذہانت کے خانے ہیں ۔انسانی دل پر جدید تحقیقات کی بنیاد پر کینیڈا کے سائنس دان ڈاکٹر جے اینڈ ریو آرمر   (Dr. J. Andrew)( Armour M.D,ph.D)نے ایک نئی میڈیکل فیلڈ کی بنیاد رکھی ہے جس کانام ہے نیورو کارڈیالوجی (Neuroradiology) یعنی انسانی دل کا اعصابی نظام  (Nervous System) ۔ڈاکٹر آرمر نے دل کے اعصابی نظام کے لیے دل کے اندر چھوٹا سادماغ )  (A little Brain in the Heartکی اصطلاح وضع کی ہے۔
یہ اس لیے کہ انہوں نے دریافت کیا ہے کہ انسانی دل کے اندر تقریباًچالیس ہزار اعصابی خلیے (Nerve Cells) پائے جاتے ہیں ۔یہ وہی خلیے ہیں جن سے دماغ بنتا ہے ۔یہ اتنی بڑی تعداد ہےکہ دماغ کےکئی چھوٹے حصے اتنے ہی اعصابی خلیوں سے مل کر بنتے ہیں ۔مزید برآں دل کے یہ خلیے دماغ کی مدد کے بغیر کام کرسکتے ہیں ۔دل کےا ندر پایا جانے والا یہ دماغ پورے جسم سے معلومات لیتا ہے اور پھر موزوں فیصلے کرنے کے بعد جسم کے اعضاء حتیٰ کہ دماغ کو بھی جوابی ہدایات دیتا ہے۔
علاوہ ازیں دل کے اندر موجود دماغ میں ایک طرح کی یاداشت  (Short Term Memory) کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے ۔دل کو دھڑکنے کےلیے دماغ کی ضرورت نہیں ہوتی ،یہی وجہ ہےکہ دل کی پیوندکاری کے آپریشن میں دل اور دماغ کے درمیان تمام رابطے کاٹ دیے جاتے ہیں اور جب دل نئے مریض کے سینے میں لگایا جاتا ہے تو وہ پھر سے دھڑکنا شروع کردیتا ہے ۔ان تمام تحقیقات کو پیش کرنے کے بعد ،جو ڈاکٹر اینڈریو آرمر اور ان کے معاون سائنس دانوں نے دل کے اعصابی نظام پر کی ہیں، ڈاکٹر آرمر اپنی کتاب  میں لکھتے ہیں  :




 انسانی دل کے پاس اپنا چھوٹا سا دماغ ہوتا ہے جو اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت مشکل قسم کے تجزیے کر سکتا ہے۔دل کے اعصابی نظام کی ساخت اور کارکردگی کے متعلق جاننے سے ہمارے علم میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہوا ہے جس کے مطابق انسانی دل نہ صرف دماغ کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے بلکہ دماغ کی مدد کے بغیر آزادنہ طور پر فرائض ادا کرتا ہے[1]
تحقیق سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ دل ،الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ کی مد د سے دماغ اور بقیہ جسم کو اطلاعات پہنچاتا ہے۔ دل انسانی جسم  میں سب زیادہ طاقتور الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ پیداکرتا ہے جو انتہائی تناسب سے کافی دور تک پھیلتی ہیں۔ دل کی پیداکردہ الیکٹرومیگنٹک فیلڈ دماغ کی پیداکردہ میگنیٹک فیلڈ سے 500 گنا طاقتور ہوتی ہیں اور ان کو جسم سے کئی فٹ کے فاصے سے بھی معلوم کیا جاسکتا ہے۔[2]
دل اور دماغ کے مابین دوطرفہ گفتگو کا سائنسی ثبوت
1970ء تک سائنس دان یہ سمجھتے تھے کہ صرف دماغ انسانی دل کو یک طرفہ احکام جاری کرتا ہے اور دل ہمیشہ ان کے مطابق کام کرتا ہے ،لیکن 1970ء کی دہائی میں امریکی ریاست اوہایو (Ohio) کے دو سائنس دانو ں جان لیسی اور اس کی بیوی بیٹرس لیسی نے یہ حیرت انگیز دریافت کی کہ انسان کے دماغ اور دل کے درمیان دوطرفہ رابطہ ہوتا ہے ۔ یہ تحقیق امریکہ کے نہایت موٴقر سائنسی جریدے  امریکن فزیالوجسٹ  کے شمارے میں چھپی تھی ۔تحقیق کا عنوان تھا۔(Two-Way communication between the heart and the brain)
انہوں نے تجربات سے یہ دریافت کیاکہ جب دماغ جسم کے مختلف اعضاء کو کوئی پیغام بھجواتا ہے تو دل آنکھیں بند کرکے اسے قبول نہیں کرلیتا۔جب دماغ جسم کو متحرک کرنے کا پیغام بھیجتا ہے تو کبھی دل اپنی دھڑکن تیز کردیتا ہے اور کبھی دماغ کے حکم کے خلاف پہلے سے بھی آہستہ ہو جاتا ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل اپن ہی کوئی منطق استعمال کرتا ہے ۔مزید براں دل بھی دماغ کو کچھ پیغامات بھیجتا ہے جنہیں دماغ نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ ان پر عمل بھی کرتا ہے[3]
جان لیسی اور بیٹرس لیسی کی تحقیقات پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی سائنس دان ڈاکٹر رولن میکریٹی اپنی کتاب میں لکھتا ہے: 
جیسے جیسے ان کی تحقیق مزید آگے بڑھی انہوں نے دریافت کیا کہ دل کی اپنی مخصوص منطق ہے جو بسا اوقات دماغ سے آنے والے پیغامات سے مختلف سمت میں جاتی ہے ۔حاصل کلام یہ کہ انسانی دل اس طرح کام کرتا ہے جیسے اس کا اپنا ایک دماغ ہو[4]
امریکی سائنس دان ڈاکٹر پال پیرٴسل (Paul Pearsall, Ph.D.) نے انسانی دل کی ذہانت پر اپنی کتاب میں سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔ڈاکٹر پیر ٴسل بیان کرتا ہے کہ علوم انسانی کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ سائنس نے کئی سچائیوں کو بہت مشکل سے تسلیم کیا ۔ اٹھارویں صدی کے وسط تک ڈاکٹر حضرات جراثیم کے وجود کو تسلیم نہیں کیا کرتے تھےاور اس دوران کئی مریضوں کی اموات جراثیموں  کی وجہ سے ہوئیں ،کیونکہ اس دور کے طبیب اپنا نشتر (Scalpel) اپنےجوتے کے تلے کے چمڑے سے تیز کرتے تھے جس پر نشتر پر جراثیم لگ جاتے اور جس مریض کا اس سے آپریشن کیا جاتا اس کی موت کا باعث بنتے۔
وہ اطباء (Doctors) اس بات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے کہ لوگ جراثیموں جیسی کسی مخلوق کے وجود کے قائل ہیں۔بالآخر جب لیون ہک (Leewenhook) نے خوردبین  (Microscope) ایجاد کی اور سائنس دانوں نے خود اپنی آنکھوں سے جراثیم دیکھے تو پھر ہر ہسپتال میں آپریشن سے پہلے ڈاکٹروں نے اپنے ہاتھ دھونا شروع کردیے اور انہوں نے اپنے میڈیکل اوزاروں کو بھی جراثیموں سے پاک (Sterilize) کرنا شروع کردیا ۔ڈاکٹر پیرٴسل کے مطابق یہی حال سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کا بالآخر دل کے معاملے میں ہوگا ،جب انہیں پتہ چل جائے گا کہ انسانی دل بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ڈاکٹر پیرٴسل مزید لکھتا ہے: 
موجودہ  دور کی ایجادات کا تعلق بھی دماغ ہی سے ہے ،دل سے نہیں ،درحقیقت دماغ سے ہمیں صرف سائنسی ترقی ملی ہے جبکہ اخلاقی ترقی صرف دل سے ہی مل سکتی ہے[5]
ڈاکٹر پیرٴسل کے مطابق پورے جسم میں دل کی ایک منفرد خصوصیت اس کا دھڑکنا (Rhythmicity) ہے ،جس کی وساطت سے دل پورے جسم پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ہر دھڑکن کے ساتھ ہم دل کی موجودگی کو اپنے جسم میں محسوس کر سکتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی کلچر او ر تہذیب کے کسی شخص کو لےلیں اور اس سے آپ کہیں کہ وہ اپنی ذات کی طرف اشارہ کرے تو کوئی شخص اپنے سر کی طرف اشارہ نہیں کرتا بلکہ اپنے دل کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے  میں  یہ کرتا ہوں یامیں یہ کہتا ہوں۔
دراصل انسانی روح کا اصل مکان دل ہوتا ہے اور انسان کی میں دراصل اس کی روح ہی ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم بھی جب دل کا ذکر کرتے ہیں تو روح کا بھی ذکر کرتے ہیں ،حتیٰ کہ مغربی عیسائی مصنفین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں اس جنت کی یاد ابھی پائی جاتی ہے جس سے حضرت آدم علیہ السلام کو نکا لا گیا تھا ،مثلاً مغربی مصنف رچر ڈ بائن برگ اپنی کتاب   میں لکھتا ہے :
ہماری مصروفیت بھری زندگی کےہنگاموں کی تہہ میں ہمارے دلوں اور ہمارے اجسام کے خلیوں (Cells) کے
ا ندر ایک کھوئی ہوئی جنت (A Paradise lost) کی خفیہ یادیں پوشیدہ ہوتی ہیں جنہیں ہم جنت میں اپنی مشترکہ بچپن جیسی زندگی  (Our shard paradisal infancy) کہہ سکتے ہیں[6]
محقق جوزف چلٹن پیرٴس  اپنی کتاب  میں قلبِ انسانی کے متعلق سائنسی تحقیقات کا خلاصہ پیش کرتےہوئے لکھتا ہے :
1.   ہمارے  ذہن کو ہمارے دل کا آلہ (Instrument) کہا جاسکتا ہے۔
2.   ہمارے دل کو بذاتِ خود انسانی زندگی کا آلہ کہا جاسکتا ہے۔
3.   ہمارا دماغ اور ہمارا جسم کچھ اس طرح کی ساخت کے بنے ہوئے ہیں کہ وہ دل سے آنے والی انفارمیشن کو ہمارے لیے منفرد تجربہ ٴ زندگی میں تبدیل کرسکیں ۔دماغ اور بقیہ جسم دل سے آنے والی اس انفارمیشن کا لمحہ بہ لمحہ تجزیہ کرتے رہتے ہیں اور پھر اس نتیجے کو جذبات کی زبان میں دل تک دوبارہ پہنچاتےہیں ۔
4.   دماغ سے آنے والی رپورٹوں کے جواب میں قلبِ انسانی پورے جسم کو اعصابی اور کیمیاوی (Neural and hormonal) سگنل بھیجتا ہے اور ان میں تبدیلی لاتا ہے ۔اس تبدیلی کی وجہ سے زندگی کے متعلق ہمارا ایک خاص قسم کا تجربہ ہماری شخصیت پر ثبت ہوجاتا ہے ۔
آخر میں محقق پیرٴس جوزف قلبِ انسانی کے متعلق درج ذیل الفاظ میں خلاصہ پیش کرتا ہے:
“Our heart plays a  major,though fragile role in our overall consciousness”
)ہمارا دل ہماری سمجھ بوجھ اور شعور میں نہایت اہم اور نازک کردار ادا کرتا ہے( [7]
قارئین کرام :یوں تو دل کے متعلق قرآن وحدیث میں بے شمار مقامات پر کہا گیا ہے مگر یہاں بطور ثبوت چند آیات و احادیث پیش کی جاتی ہیں تاکہ آپ کو جدید سائنس اورقرآنی آیات کی اطلاعات کے درمیان موازنہ کرنے میں آسانی رہے ۔ارشاد فرمان باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ!
فَلَوْ لَاۤ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَ لٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۰۰۴۳
پھر جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو وہ کیوں نہ گڑگڑائے؟ مگر ان کے دل تو اور سخت ہوگئے اور جو کام وہ کر رہے تھے شیطان نے انہیں وہی کام خوبصورت بنا کر دکھا دیئے  )الانعام(
وَ لِتَصْغٰۤى اِلَيْهِ اَفْـِٕدَةُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ لِيَرْضَوْهُ وَ لِيَقْتَرِفُوْا مَا هُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ۰۰۱۱۳
اور (وہ ایسے کام) اس لیے بھی (کرتے تھے) کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل ان کی باتوں پر مائل ہوں اور وہ انھیں پسند کریں اور جو کام وہ کرتے تھے وہی کرنے لگیں ۔ )الانعام(
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَۚۖ۰۰۲
سچّے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں، (الانفال)
لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطٰنُ فِتْنَةً لِّلَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ الْقَاسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَفِيْ شِقَاقٍۭ بَعِيْدٍۙ۰۰۵۳
(وہ اس لیے ایسا ہونے دیتا ہے ) تاکہ شیطان کی ڈالی ہوئی خرابی کو فتنہ بنا دے ان لوگوں کے لیے جن کے دلوں کو (نفاق کا ) روگ لگا ہوا ہے اور جن کے دل کھوٹے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ عناد میں بہت دور نکل گئے ہیں ۔(الحج)
اب فرموداتِ امام الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم سماعت فرمائیے:
·       ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا (جب) جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہوجائیں گے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ (فرشتوں) سے فرمائے گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر (بھی) ایمان ہو، اس کو (دوزخ سے) نکال لو، پس وہ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور وہ (جل کر) سیاہ ہوچکے ہونگے[8]
·       حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہہ دے اور اس کے دل میں ایک جو کے برابر نیکی (ایمان) ہو وہ دوزخ سے نکالا جائے گا اور جو لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہے اور اس کے دل میں گہیوں کے ایک دانے کے برابر خیر (ایمان) ہو وہ (بھی) دوزخ سے نکالا جائے گا اور جو شخص لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہے اور اس کے دل میں ایک ذرہ برابر نیکی (ایمان) ہو وہ بھی دوزخ سے نکالا جائے گا، ابوعبداللہ نے کہا کہ ابان نے بروایت قتادہ، انس، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بجائے خیر کے ایمان کا لفظ روایت کیا ہے۔[9]
·       نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ حلال ظاہر ہے اور حرام (بھی ظاہر ہے) اور دونوں کے درمیان میں شبہ کی چیزیں ہیں کہ جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، پس جو شخص شبہ کی چیزوں سے بچے اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچالیا اور جو شخص شبہوں (کی چیزوں) میں مبتلا ہوجائے (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے کہ جانور شاہی چراگاہ کے قریب چر رہا ہو جس کے متعلق اندیشہ ہوتا ہے کہ ایک دن اس کے اندر بھی داخل ہو جائے (لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے، آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ کی چراگاہ اس کی زمین میں اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں، خبردار ہو جاؤ! کہ بدن میں ایک ٹکڑا گوشت کا ہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو تمام بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو تمام بدن خراب ہو جاتا ہے، سنو وہ ٹکڑا دل ہے۔[10]

·       اسحاق بن ابراہیم، معاذ بن ہشام، ہشام، قتادہ، انس بن مالک کہتے ہیں کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ (ایک مرتبہ) آپ صلی اللہ کے ہمراہ آپ کی سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے معاذ (بن جبل) انہوں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسعدیک آپ نے فرمایا کہ اے معاذ انہوں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسعدیک تین مرتبہ (ایسا ہی ہوا) آپ نے فرمایا کہ جو کوئی اپنے سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ سوا خدا کے کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اللہ اس پر (دوزخ کی) آگ حرام کر دیتا ہے۔ معاذ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں لوگوں کو اس کی خبر کردوں؟ تاکہ وہ خوش ہوجائیں آپ نے فرمایا کہ اس وقت جب کہ تم خبر کر دوگے لوگ (اسی پر) بھروسہ کرلیں گے اور عمل سے باز رہیں گے۔ معاذ نے یہ حدیث اپنی موت کے وقت اس خوف سے بیان کردی کہ کہیں (حدیث کے چھپانے پر ان سے) مواخذہ نہ ہوجائے۔
فرعون کی لاش کی دریافت اوراس کا محفوظ رہنا
  فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اورآپ کی قوم بنی اسرائیل پر بہت مظالم ڈھائے تھے۔  دراصل فرعون اس وقت کے بادشاہوں کا لقب تھا جو بھی بادشاہ بنتا اس کو فرعون کہا جاتاتھا۔ ڈاکٹر مورس بوکائیے کی تحقیق کے مطابق بنی اسرائیل پر ظلم وستم کرنے والے حکمران کا نام رعمسس دوم تھا۔  بائیبل کے بیا ن کے مطابق اس نے بنی اسرائیل سے بیگا رکے طور پر کئی شہر تعمیر کروائے تھے جن میں سے ایک کانام ''رعمسس ''رکھا گیا تھا۔ جدیدِ تحقیقات کے مطابق یہ تیونس اورقطر کے اس علاقے میں واقع تھا جو دریائے نیل کے مشرقی ڈیلٹے میں واقع ہے۔
         رعمسس کی وفات کے بعد اس کا جانشین مرنفتاح مقر ر ہوا۔ اسی کے دورِ حکمرانی میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل سمیت مصر چھوڑنے کا حکم دیا۔ چنانچہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو ہمراہ لیے دریائے نیل پار کررہے تھے یہ بھی اپنے لشکر سمیت ان کا پیچھا کرتے ہوئے دریائے نیل میں اتر پڑا مگر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دریا پار کروانے کے بعد دریا کے پانی کو چلا دیا اورفرعون کو اس کے لشکرسمیت ڈبوکر ہلاک کردیا (1)۔ اس سارے واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے درجِ ذیل آیات میں بیان کیا ہے:
(وَجٰوَزْنَا بِبَنِیْ اِسْرَآئِیْل الْبَحْرَ فَاَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُوْدُہ بَغْیًا وَّعَدْوًا ط حَتّٰی اِذَآاَدْرَکَہُ   الْغَرَقُ لا قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْ اٰمَنَتْ بِہ بَنُوآ اِسْرِآئِیْلَ وَاَنا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔ اٰلْئٰنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ۔ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَةً ط وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ)
''اورہم بنی اسرائیل کو سمندر سے گزار لے گئے۔ پھر فرعون اوراس کے لشکر ظلم اورزیادتی کی غرض سے ان کے پیچھے چلے۔ حتیٰ کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اٹھا ''میں نے مان لیا کہ خداوندِحقیقی اُس کے سوا کوئی نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں بھی سرِاطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں''(جواب دیا گیا) ''اب ایمان لاتا ہے !حالانکہ اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتا رہا اورفساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔ اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لیے نشان ِ عبرت بنے، اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں ''(2)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک پیشین گوئی فرمائی ہے کہ ہم فرعون کی لاش کو محفوظ رکھیں گے تاکہ بعدمیں آنے والے لوگوں کے لیے وہ باعث عبرت ہو۔ اپنے آپ کو خداکہلوانے والے کی لاش کو دیکھ کر آنے والی نسلیں سبق حاصل کریں۔ چنانچہ اللہ کا فرمان سچ ثابت ہوا اور اس کا ممی شدہ جسم 1898ء میں دریائے نیل کے قریب تبسیہ کے مقام پر شاہوں کی وادی سے اوریت نے دریافت کیا تھا۔جہاں سے اس کو قاہرہ منتقل کر دیا گیا۔ ایلیٹ اسمتھ نے 8جولائی 1907ء کو ا س کے جسم سے غلافوں کو اتارا، تو اس کی لاش پر نمک  کی ایک تہہ جمی پائی گئی تھی جو کھاری پانی میں  اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت تھی ۔ اس نے اس عمل کا تفصیلی تذکرہ اورجسم کے جائزے کا حال اپنی کتاب ''شاہی ممیاں ''(1912ء) میں درج کیا ہے۔اس وقت یہ ممی محفوظ رکھنے کے لیے تسلی بخش حالت میں تھی حالانکہ ا س کے کئی حصے شکستہ ہوگئے تھے۔ اس وقت سے ممی قاہرہ کے عجائب گھر میں سیاحو ں کے لیے سجی ہوئی ہے۔ اس کا سر اورگردن کھلے ہوئے ہیں اورباقی جسم کو ایک کپڑے میں چھپاکرر کھا ہواہے۔ محمد احمد عدوی  ''دعوة الرسل الی اللہ'' میں لکھتے ہیں  کہ اس نعش کی ناک کے سامنے کا حصہ ندارد  ہے جیسے کسی حیوان نے کھا لیا ہو ،غالباً سمندری مچھلی نے اس پر منہ مارا تھا، پھر اس کی لاش اُلوہی فیصلے کے مطابق کنارے پر پھینک دی گئی تاکہ دنیا کے لیے عبرت ہو۔
 

    جون1975ء میں ڈاکٹر مورس بوکائیے نے مصری حکمرانوں کی اجازت سے فرعون کے جسم کے ان حصوں کا جائزہ لیا جو اس وقت تک ڈھکے ہوئے تھے اور ان کی تصاویر اتاریں۔ پھر ایک اعلیٰ درجہ کی شعاعی مصوری کے ذریعے ڈاکٹر ایل میلجی اورراعمسس نے ممی کا مطالعہ کیا اورڈاکٹر مصطفی منیالوی نے صدری جدارکے ایک رخنہ سے سینہ کے اندرونی حصوں کاجائزہ لیا۔ علاوہ ازیں جوف شکم پر تحقیقات کی گئیں۔ یہ اندرونی جائزہ کی پہلی مثال تھی جو کسی ممی کے سلسلے میں ہوا۔اس ترکیب سے جسم کے بعض اندرونی حصوں کی اہم تفصیلات معلوم ہوئیں اور ان کی تصاویر بھی اتاری گئیں۔  پروفیسر سیکالدی نے پروفیسر مگنواورڈاکٹر دوریگون کے ہمراہ ان چند چھوٹے چھوٹے اجزا کاخوردبینی مطالعہ کیا جوممی سے خود بخود جد اہوگئے تھے۔ (3)ان تحقیقات سے حاصل ہونے والے نتائج نے ان مفروضوں کو تقویت بخشی جو فرعون کی لاش کے محفوظ رہنے کے متعلق قائم کیے گئے تھے۔ ان تحقیقات کے نتائج کے مطابق فرعون کی لاش زیادہ عرصہ پانی میں نہیں رہی تھی اگر فرعون کی لاش کچھ اورمدت تک پانی میں ڈوبی رہتی تو اس کی حالت خراب ہوسکتی تھی(4) ،حتیٰ کہ اگر پانی کے باہر بھی غیر حنوط شدہ حالت میں ایک لمبے عرصے تک پڑی رہتی تو پھر بھی یہ محفوظ نہ رہتی۔علاوہ ازیں ان معلومات کے حصول کے لیے بھی کوششیں جاری رکھی گئیں کہ اس لا ش کی موت کیا پانی میں ڈوبنے سے ہوئی یا کوئی اور وجوہات بھی تھیں؟چنانچہ مزید تحقیقات کے لیے ممی کو پیرس لے جایا گیا اور وہاں Legal Identification Laboratory کے مینیجر Ceccaldiاور Dr. Durigon نے مشاہد ات کے بعد بتایا کہ : اس لا ش کی فوری موت کا سبب وہ شدید چوٹ تھی جو اس کی کھوپڑی (دماغ)کے سامنے والے حصے کو پہنچی کیونکہ اس کی کھوپڑی کے محراب والے حصے میں کافی خلا موجودہے۔اور یہ تما م تحقیقات آسمانی کتابوں میں بیان کردہ فرعون کے (ڈوب کرمرنے کے) واقعہ کی تصدیق کرتی ہیں کہ جس میں بتایا گیا ہے کہ فرعون کو دریا کی موجوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔(5)
 
 
جیساکہ ان نتائج سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو محفوظ رکھنے کا خا ص اہتمام کیا تھا جس کی وجہ سے یہ ہزاروں سال تک زمانے کے اثرات سے محفوظ رہی اورآخرکار اس کو انیسویں صدی میں دریافت کیاگیا اورانشاء اللہ یہ قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے سامان عبرت رہے گی۔مزیدبرآں اللہ تعالیٰ کایہ فرمان کہ'' ہم فرعون کی لاش کوسامانِ عبرت کے لیے محفوظ کرلیں گے'' صرف قرآن مجید میں موجود ہے، اس سے پہلے کسی دوسری آسمانی کتاب میں اس کا اعلان نہیں کیا گیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے معلومات لے کر اس کو قرآن میں لکھ دیتے (نعوذباللہ ) ،جیساکہ یہودیوں اور عیسائیوں کا پیغمبر ِاسلام کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈاہے۔چنانچہ یہ قرآن مجید کے سچا اور منجانب اللہ ہونے کا ایک اور لاریب ثبوت ہے جس کو جھٹلانا کسی کے بس میں نہیں ہے۔
چاند کا دوٹکڑے ہونااور جدید سائنس 
اپالو 10اور 11کے ذریعے ناسانے چاند کی جو تصویر لی ہے اس سے صاف طور پر پتہ چلتاہے کہ زمانہ ماضی میں چاند دو حصوںمیں تقسیم ہوا تھا ۔یہ تصویر ناسا کی سرکاری ویب سائٹ پر موجود ہے اور تاحال تحقیق کامرکز بنی ہوئی ہے ۔ 
ناسا ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے ۔ا س تصویر میں راکی بیلٹ کے مقام پر چاند دوحصوں میں تقسیم ہوا نظر آتاہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں مصر کے ماہر ارضیات ڈاکٹر زغلول النجار سے میزبان نے اس آیت کریمہ کے متعلق پوچھا
(اِ قْتَرَ بَتِ السَّا عَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ  0  وَ اِنْ یَّرَ وْ ا اٰ یَةً یُّعْرِ ضُوْ ا وَ یَقُوْ لُوْ ا سِحْرُ مُّسْتَمِرُّ  0  وَ کَذَّ بُوْا وَ اتَّبَعُوْا اَھْوَآ ءَ ھُمْ وَ کُلُّ اَمْرٍ  مُّسْتَقِرُّ 0)
  قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا .یہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں  یہ پہلے سے  چلا آتا  ہوا جادو ہے۔انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی اور ہر کام ٹھہرے ہوئے وقت پر مقرر ہے۔'' ۔
( القمر، 1-3
ڈاکٹرزغلول النجارکنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ میں ماہر ارضیات کے پروفیسرہیں۔ قرآن مجید میں سائنسی حقائق کمیٹی کے سربراہ ہیں ۔ اورمصرکی سپریم کونسل آف اسلامی امور کی کمیٹی کے بھی سربراہ ہیں۔ انہوں نے میزبان سے کہاکہ اس آیت کریمہ کی وضاحت کے لیے میرے پاس ایک واقعہ موجود ہے ۔انہوں نے اس واقعہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ میں برطانیہ کے مغرب میں واقع کارڈ ف یونیورسٹی میں ایک لیکچر دے رہا تھا ۔جس کوسننے کے لیے مسلم اور غیر مسلم طلبا ء کی کثیر تعداد موجود تھی ۔قرآن میں بیان کردہ سائنسی حقائق پر جامع انداز میں گفتگو ہورہی تھی کہ ایک نو مسلم نوجوان کھڑ ا ہوا اور مجھے اسی آیت کریمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے  کہا کہ سر کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور فرمایا ہے ، کیا یہ قرآن میں بیان کردہایک سائنسی حقیقت نہیں ہے ۔ڈاکٹر زغلول النجار نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہیں! کیونکہ سائنس کی دریافت کردہ حیران کن اشیاء یا واقعات کی تشریح سائنس کے ذریعے کی جاسکتی ہے مگر معجزہ ایک مافوق الفطرت شے ہے ،جس کو ہم سائنسی اصولوں سے ثابت نہیں کرسکتے ۔چاند کا دوٹکڑے ہوناایک معجزہ تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے نبوت محمد ی  صلی اللہ علیہ وسلم   کی سچائی کے لیے بطوردلیل دکھایا ۔حقیقی معجزات ان لوگوں کے لیے قطعی طورپر سچائی کی دلیل ہوتے ہیں جو ان کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ہم اس کو اس لیے معجزہ تسلیم کرتے ہیں کیونکہ اس کا ذکر قرآن وحدیث میں موجود ہے ۔اگر یہ ذکر قرآن وحدیث میں موجودنہ ہوتاتو ہم اس زمانے کے لو گ اس کو معجزہ تسلیم نہ کرتے ۔علاوہ ازیں ہمار ااس پر بھی ایمان ہے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتاہے ۔

پھر انہوں نے چاند کے دوٹکڑے ہونے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ احادیث کے مطابق ہجرت سے 5سال قبل قریش کے کچھ لوگ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ اگر آپ واقعی اللہ کے سچے نبی ہیں تو ہمیں کوئی معجزہ دکھائیں ۔حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟انہوں نے ناممکن کام کا خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس چاند کے دو ٹکڑے کر دو۔چناچہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے چاند کی طرف اشارہ کیا اور چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے  حتٰی کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو اس کے درمیان دیکھا . یعنی اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اس طرف اورایک ٹکڑا اس طرف ہو گیا۔ ابن مسعود   فرماتے ہیں سب لوگوں نے اسے بخوبی دیکھا اورآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا دیکھو ،یادرکھنا اور گواہ رہنا۔کفار مکہ نے یہ دیکھ کر کہا کہ یہ ابن ابی کبشہ یعنی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا جادو ہے ۔کچھ اہل دانش لوگوں کا خیال تھا کہ جادو کا اثر صرف حاضر لوگوں پر ہوتاہے ۔اس کا اثر ساری دنیا پر تو نہیں ہو سکتا ۔چناچہ انہوں نے طے کیاکہ اب جولوگ سفر سے واپس آئیں ان سے پوچھو کہ کیا انہوں نے بھی اس رات چاند کو دو ٹکڑے دیکھاتھا۔چناچہ جب وہ آئے ان سے پوچھا ، انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ ہاں فلاں شب ہم نے چاند کے دوٹکڑے ہوتے دیکھاہے ۔کفار کے مجمع نے یہ طے کیا تھا کہ اگر باہر کے لوگ آ کر یہی کہیں تو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سچائی میں کوئی شک نہیں ۔اب جو باہر سے آیا ،جب کبھی آیا ،جس طرف سے آیا ہر ایک نے اس کی شہادت دی کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھاہے ۔ا س شہادت کے باوجود کچھ لوگوں نے اس معجزے کا یقین کرلیا مگر کفار کی اکثریت پھر بھی انکار پر اَڑی رہی۔
اسی دوران ایک برطانوی مسلم نوجوان کھڑا ہوا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے کہاکہ میر انام داؤد موسیٰ پیٹ کاک ہے۔میں اسلامی پارٹی برطانیہ کا صدر ہوں۔وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا کہ سر !اگر آ پ اجازت دیں تو اس موضوع کے متعلق میں بھی کچھ عرض کرنا چاہتاہوں ۔مَیں نے کہا کہ ٹھیک ہے تم بات کرسکتے ہو!اس نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے جب میں مختلف مذاہب کی تحقیق کر رہا تھا،ایک مسلمان دوست نے مجھے قرآن شریف کی انگلش تفسیر پیش کی ۔مَیں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اُسے گھر لے آیا ۔گھر آکر جب میں نے قرآن کو کھولا تو سب سے پہلے میری نظر جس صفحے پر پڑی وہ یہی سورة القمر کی ابتدائی آیات تھیں ۔ان آیات کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کے بعدمیں نے اپنے آپ سے کہا کہ کیا اس بات میں کوئی منطق ہے ؟کیا یہ ممکن ہے کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوں اور پھر آپس میں دوبارہ جڑ جائیں ۔وہ کونسی طاقت تھی کہ جس نے ایسا کیا ؟ان آیات کریمہ نے مجھے اس بات پر آمادہ کیا کہ میں قرآن کامطالعہ برابرجاری رکھوں ۔کچھ عرصے کے بعد مَیں اپنے گھریلو کاموں میں مصروف ہوگیا مگر میرے اندر سچائی کو جاننے کی تڑپ کا اللہ تعالیٰ کو خوب علم تھا ۔
یہی وجہ ہے کہ خدا کا کرنا ایک دن ایساہوا کہ میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا ۔ٹی وی پر ایک باہمی مذاکرے کا پروگرام چل رہاتھا ۔جس میں ایک میزبان کے ساتھ تین امریکی ماہرین فلکیات بیٹھے ہوئے تھے ۔ٹی وی شو کا میزبان سائنسدانوں پر الزامات لگا رہا تھا کہ اس وقت جب کہ زمین پر بھوک ،افلاس ،بیماری اورجہالت نے ڈھیرے ڈھالے ہوئے ہیں ،آپ لوگ بے مقصد خلا میں دورے کر تے پھررہے ہیں۔جتنا روپیہ آپ ان کاموں پر خرچ کر رہے ہیں وہ اگر زمین پر خرچ کیا جائے تو کچھ اچھے منصوبے بنا کر لوگوں کی حالت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے اور اپنے کام کا دفاع کرتے ہوئے اُن تینوں سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ خلائی ٹیکنالوجی زندگی کے مختلف شعبوں ادویات ،صنعت اور زراعت کو وسیع پیمانے پر ترقی دینے میں استعما ل ہوتی ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم سرمائے کو ضائع نہیں کررہے بلکہ اس سے انتہائی جدید ٹیکنالوجی  کو فروغ دینے میں مدد مل رہی ہے ۔جب انہوں نے بتایا کہ چاند کے سفر پر آنے جانے کے انتظامات پر ایک کھرب ڈالر خرچ آتاہے تو ٹی وی میزبان نے چیختے ہوئے کہا کہ یہ کیسافضول پن ہے ؟ایک امریکی جھنڈے کو چاند پر لگانے کے لیے ایک کھرب ڈالر خرچ کرنا کہا ں کی عقلمندی ہے ؟سائنسدانوں نے جوابا ً کہا کہ نہیں ! ہم چاند پر اس لیے نہیں گئے کہ ہم وہاں جھنڈا گاڑ سکیں بلکہ ہمارا مقصد چاند کی بناوٹ کا جائزہ لیناتھا ۔دراصل ہم نے چا ند پر ایک ایسی دریافت کی ہے کہ جس کا لوگوں کویقین دلانے کے لیے ہمیں اس سے دوگنی رقم بھی خرچ کرنا پڑسکتی ہے۔مگر تاحال لوگ اس بات کو نہ مانتے ہیں اور نہ کبھی مانیں گے۔میزبان نے پوچھا کہ وہ دریافت کیا ہے؟انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک دن چاند کے دوٹکڑے ہوئے تھے اورپھر یہ دوبارہ آپس میں مل گئے۔میزبان نے پوچھاکہ آپ نے یہ چیز کس طرح محسوس کی ؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے تبدیل شدہ چٹانوں کی ایک ایسی پٹی وہا ں دیکھی ہے کہ جس نے چاند کو اس کی سطح سے مرکز تک اور پھر مرکز سے اس کی دوسری سطح تک، کو کاٹا ہوا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اس بات کا تذکرہ ارضیاتی ماہرین سے بھی کیا ہے۔ ان کی رائے کے مطابق ایسا ہرگز اس وقت تک نہیں ہوسکتا کہ کسی دن چاند کے دو ٹکڑے ہوئے ہوں اور پھر دوبارہ آپس میں جڑبھی گئے ہوں۔
برطانوی مسلم نوجوان نے بتایا کہ جب مَیں نے یہ گفتگو سنی تو اپنی کرسی اچھل پڑا اوربے ساختہ میرے منہ سے نکلا کہ اللہ نے امریکیوں کو اس کام کے لیے تیا رکیا کہ وہ کھربوں ڈالر لگاکر مسلمانوں کے معجزے کو ثابت کریں ، وہ معجزہ  کہ جس کا ظہور آج سے 14سو سال قبل مسلمانوں کے پیغمبر کے ہاتھوں ہوا۔مَیں نے سوچا کہ اس مذہب کو ضرور سچا ہوناچاہیے ۔میں نے قرآن کو کھولا اور سورة القمر کو پھر پڑھا۔درحقیقت یہی سورة میرے اسلام میں داخلے کا سبب بنی۔
 
علاوہ ازیں انڈیاکے جنوب مغرب میں واقع مالابار کے لوگوں میں یہ با ت مشہور ہے کہ مالابار کے ایک بادشاہ چکراوتی فارمس نے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کامنظر اپنی آنکھوں سے دیکھاتھا ۔ا س نے سوچاکہ ضرور زمین پر کچھ ایساہو اہے کہ جس کے نتیجے میں یہ واقعہ رونما ہوا ۔چناچہ اس نے اس واقعے کی تحقیق کے لیے اپنے کارندے دوڑائے تو اسے خبر ملی کہ یہ معجزہ مکہ میں کسی نبی کے ہاتھوں رونما ہوا ہے ۔اس نبی کی آمد کی پیشین گوئی عرب میں پہلے سے ہی پائی جاتی تھی ۔چناچہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے ملاقات کا پروگرام بنایا اوراپنے بیٹے کو اپنا قائم مقام بنا کرعرب کی طرف سفر پر روانہ ہوا۔وہاں اس نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری دی اور مشرف بااسلام ہوا۔نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق جب و ہ واپسی سفر پر گامزن ہوا تو یمن کے ظفر ساحل پراس نے وفات پائی ۔یمن میں اب بھی اس کا مقبر ہ موجودہے۔جس کو ''ہندوستانی راجہ کا مقبرہ''کہا جاتاہے اور لوگ اس کودیکھنے کے لیے وہاں کا سفر بھی کرتے ہیں۔اسی معجزے کے رونما ہونے کی وجہ سے اورراجہ کے مسلمان ہونے کے سبب مالابار کے لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا۔اس طرح انڈیا میں سب سے پہلے اسی علاقے کے لوگ مسلمان ہوئے ۔بعدازاں انہوں نے عربوں کے ساتھ اپنی تجارت کو بڑھایا ۔نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب کے لوگ اسی علاقے کے ساحلوں سے گزر کر تجارت کی غرض سے چین جاتے تھے ۔یہ تمام واقعہ اور مزید تفصیلات لندن میں واقع''انڈین آفس لائبیریری''کے پرانے مخطوطوں میں ملتاہے۔جس کاحوالہ نمبر   
   ہے۔(Arabic ,2807,152-173) 
اس واقعہ کا ذکر محمدحمیداللہ نے اپنی کتاب ''محمدرسول اللہ''میں کیاتھا۔  ناسا کی یہ تصویرچاند پر پائی جانے والی کئی دراڑوں میں سے ایک دراڑ کی ہے ۔ ہم وثوق سے تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ وہی دراڑ ہے کہ جو معجزہ کے رونما ہونے کی بناء پر وجود میں آ ئی تھی مگر ہمارا ایمان ہے کہ معجزہ کے بعد چاند کی کچھ ایسی ہی صورتحال ہوئی ہو گی۔  بحرحال سائنسدانوں کے  بیانات سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم نے جس واقعہ کا ذکر آج سے 14سو سال پہلے کیا تھا وہ بالکل برحق ہے ۔ یہ ناصر ف قرآن مجید کی سچائی کی ایک عظیم الشان دلیل ہے بلکہ یہ ہمارے پیارے نبی ،امام الانبیا ء کی رسالت کی بھی لاریب گواہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کو اکمل و کامل کرے اور ہمیں قرآن وحدیث کے مطابق اپنے عملوں کو سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 
Share it Please

Earn Studio

“I Dr Majid Aslam’ love my job... I’m easy to get on with and offer skills that will blow your mind-hole! Well, what are you waiting for? Hire me now, you won’t be disappointed! .

0 comments:

Post a Comment

Copyright @ 2014 میری بیاض. Designed by Dr Majid Aslam | Like Us FB